گزر گئی ہے ابھی ساعت گزشتہ بھی
نظر اٹھا کہ گزر جائے گا یہ لمحہ بھی
بہت قریب سے ہو کر گزر گئی دنیا
بہت قریب سے دیکھا ہے یہ تماشا بھی
گزر رہے ہیں جو بار نظر اٹھائے ہوئے
یہ لوگ محو تماشا بھی ہیں تماشا بھی
وہ دن بھی تھے کہ تری خواب گیں نگاہوں سے
پکارتی تھی مجھے زندگی بھی دنیا بھی
جو بے ثباتئ عالم پہ بحث تھی سر بزم
میں چپ رہا کہ مجھے یاد تھا وہ چہرا بھی
کبھی تو چاند بھی اترے گا دل کے آنگن میں
کبھی تو موج میں آئے گا یہ کنارا بھی
نکال دل سے گئے موسموں کی یاد اجملؔ
تری تلاش میں امروز بھی ہے فردا بھی
غزل
گزر گئی ہے ابھی ساعت گزشتہ بھی
اجمل سراج