گونجتا ہے نالۂ مہتاب آدھی رات کو
ٹوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو
بھاگتے سایوں کی چیخیں ٹوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشر بے خواب آدھی رات کو
شام ہی سے بزم انجم نشۂ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو
اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو
دولت احساس غم کی اتنی ارزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
غزل
گونجتا ہے نالۂ مہتاب آدھی رات کو
شکیب جلالی