گونگے لفظوں کا یہ بے سمت سفر میرا ہے
گفتگو اس کی ہے لہجے میں اثر میرا ہے
میں نے کھوئے ہیں یہاں اپنے سنہرے شب و روز
در و دیوار کسی کے ہوں یہ گھر میرا ہے
میرا اسلاف سے رشتہ تو نہ توڑ اے دنیا
سب محل تیرے ہیں لیکن یہ کھنڈر میرا ہے
آتی جاتی ہوئی فصلوں کا محافظ ہوں میں
پھل تو سب اس کی امانت ہیں شجر میرا ہے
میرے آنگن کے مقدر میں اندھیرا ہی سہی
اک چراغ اب بھی سر راہ گزر میرا ہے
دور تک دار و رسن دار و رسن دار و رسن
ایسے حالات میں جینا بھی ہنر میرا ہے
جب بھی تلوار اٹھاتا ہوں کہ چھیڑوں کوئی جنگ
ایسا لگتا ہے کہ ہر شانے پہ سر میرا ہے

غزل
گونگے لفظوں کا یہ بے سمت سفر میرا ہے
معراج فیض آبادی