گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے
کس کور چشم شب میں ستارا کیا مجھے
زخم ہنر کو سمجھے ہوئے ہے گل ہنر
کس شہر نا سپاس میں پیدا کیا مجھے
جب حرف ناشناس یہاں لفظ فہم ہیں
کیوں ذوق شعر دے کے تماشا کیا مجھے
خوشبو ہے چاندنی ہے لب جو ہے اور میں
کس بے پناہ رات میں تنہا کیا مجھے
دی تشنگی خدا نے تو چشمے بھی دے دیے
سینے میں دشت آنکھوں میں دریا کیا مجھے
میں یوں سنبھل گئی کہ تری بے وفائی نے
بے اعتباریوں سے شناسا کیا مجھے
وہ اپنی ایک ذات میں کل کائنات تھا
دنیا کے ہر فریب سے ملوا دیا مجھے
اوروں کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
بیتے دنوں کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیا مجھے
غزل
گونگے لبوں پہ حرف تمنا کیا مجھے
پروین شاکر