EN हिंदी
گھوموں نہیں تو کیا میں کہیں جا کے پڑ رہوں | شیح شیری
gumun nahin to kya main kahin ja ke paD rahun

غزل

گھوموں نہیں تو کیا میں کہیں جا کے پڑ رہوں

ایم کوٹھیاوی راہی

;

گھوموں نہیں تو کیا میں کہیں جا کے پڑ رہوں
بیمار آدمی کی طرح رات کاٹ دوں

دیکھے گا آج میری طرف کون پیار سے
بجھتا ہوا چراغ ہوں پت جھڑ کا چاند ہوں

تصویر بن کے دیکھ رہا ہوں جہان کو
تو ہی بتا کہ اور میں اب کیسے چپ رہوں

شیریں ہے زہر موت کا اے تلخیٔ حیات
جی چاہتا ہے آج ترا جام توڑ دوں

اس بارے میں تو آپ سے بہتر ہوں میں ضرور
پینا بھی پڑ گیا تو پیا ہے خود اپنا خوں

خط لکھ کے پھاڑ دینا مرے مشغلوں میں ہے
پڑھتی رہی ہے آگ مرا نامۂ زبوں

گر جائے گی یہ چھت جو چلی جھوم کر ہوا
راہیؔ مری حیات ہے اک قصر بے ستوں