EN हिंदी
غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے | شیح شیری
ghurur-o-naz-o-takabbur ke din to kab ke gae

غزل

غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے

ظہیر احمد ظہیر

;

غرور و ناز و تکبر کے دن تو کب کے گئے
ظہیرؔ اب وہ زمانے حسب نسب کے گئے

بہت غرور گلستاں میں تھا گلابوں کو
تمہیں جو دیکھا تو ہوش و حواس سب کے گئے

مچا ہے شور خزاں کا ہے رخ اسی جانب
اگر یہ سچ ہے تو سمجھو کہ ہم بھی اب کے گئے

خلوص سے نہ سہی رسم ہی نبھانے کو
تم آ گئے ہو تو شکوے تمام لب کے گئے

وہ چاندنی وہ تبسم وہ پیار کی باتیں
ہوئی سحر تو وہ منظر تمام شب کے گئے

کبھی تو حلقۂ زنجیر یاس بھی ٹوٹے
کبھی تو لوٹ کے آئیں وہ لمحے جب کے گئے