غرور پاس روایت بدل کے رکھ دوں گا
میں رفتگاں کی شریعت بدل کے رکھ دوں گا
گدائے علم ہوں نکلا تو پھر قرینے سے
تمہارا طرز طریقت بدل کے رکھ دوں گا
صلاح دوست شرافت سے مان لے ورنہ
میں یہ لباس شرافت بدل کے رکھ دوں گا
جو عہد رفتہ سے جاؤں گا رفتگاں کی طرف
تو پھر سکون سے وحشت بدل کے رکھ دوں گا
میں اس زمین سے جس روز اٹھ گیا اخترؔ
تو آسمان کی حالت بدل کے رکھ دوں گا
غزل
غرور پاس روایت بدل کے رکھ دوں گا
اختر رضا عدیل