EN हिंदी
غرور ناز دکھا تجھ میں کتنا جوہر ہے | شیح شیری
ghurur-e-naz dikha tujh mein kitna jauhar hai

غزل

غرور ناز دکھا تجھ میں کتنا جوہر ہے

غوث محمد غوثی

;

غرور ناز دکھا تجھ میں کتنا جوہر ہے
مرا خلوص بھی دریا نہیں سمندر ہے

پرکھ یہی ہے محبت کی آنچ دو اس کو
پگھل گیا تو وہ شیشہ ہے ورنہ پتھر ہے

خلا نورد کو یارو فراز منزل کیا
کہ اب تو اس کا ہر اک پر بجائے شہ پر ہے

عداوتوں کو فنا کر دیا محبت سے
مجاہدے میں محبت ہی اپنا خنجر ہے

ثبوت بیعت پیر حرم یہ ہے تو سہی
کہ آج تک کف دست رسا منور ہے

مجھے ضرورت غازہ نہیں کہ چہرے پر
مرے ضمیر کا جو رنگ ہے اجاگر ہے

ستارہ سحر آثار ہے جو اے غوثیؔ
غبار بستہ ابھی اس کا پیش منظر ہے