غروب ہوتے ہوئے دو ستارے آنکھوں میں
شکست خواب کے ہیں استعارے آنکھوں میں
پھر اس کے بعد کسی بھی پلک اماں نہ ملی
وہ روز و شب کہ جو ہم نے گزارے آنکھوں میں
ہم آخر شب امید سو بھی جائیں مگر
وہ خواب گمشدگاں کون اتارے آنکھوں میں
اس اہتمام سے روتے ہیں تیرے دل زدگاں
کہ باہر آنکھوں سے دریا کنارے آنکھوں میں
ہم اپنے چہرے پہ اپنا ہی دکھ نہیں رکھتے
سب اہل ہجر کے ہیں گوشوارے آنکھوں میں
وہ کشتگان پس و پیش ان کہے الفاظ
جو بچ گئے تھے سو وہ بھی سدھارے آنکھوں میں

غزل
غروب ہوتے ہوئے دو ستارے آنکھوں میں
صفدر صدیق رضی