EN हिंदी
غربت کا اب مذاق اڑانے لگے ہیں لوگ | شیح شیری
ghurbat ka ab mazaq uDane lage hain log

غزل

غربت کا اب مذاق اڑانے لگے ہیں لوگ

محمد علی ساحل

;

غربت کا اب مذاق اڑانے لگے ہیں لوگ
دولت کو سر کا تاج بتانے لگے ہیں لوگ

تہذیب شہر کتنی بدل دی ہے وقت نے
اپنی روایتوں کو بھلانے لگے ہیں لوگ

اللہ ان کی عقل کا پردا ذرا ہٹا
پھر اپنی بیٹیوں کو جلانے لگے ہیں لوگ

حد ہو چکی ہے اب تو مرے انکسار کی
کمتر سمجھ کے مجھ کو ستانے لگے ہیں لوگ

الزام سارا اپنے مقدر پہ ڈال کر
ناکامیوں کو اپنی چھپانے لگے ہیں لوگ

سچائی کا علم مرے ہاتھوں میں دیکھ کر
بستی میں کتنا شور مچانے لگے ہیں لوگ

موجوں سے لڑتے لڑتے جو ساحل تک آ گیا
احسان اس پہ اپنا جتانے لگے ہیں لوگ