گنگناتی ہوئی آواز کہاں سے لاؤں
تیری آواز کا انداز کہاں سے لاؤں
تیرے الطاف سے رقصاں ہیں لبوں پر خوشیاں
غم میں ڈوبی ہوئی آواز کہاں سے لاؤں
حال دل پھول سے چہروں کو سنانے کے لئے
میں لب زمزمہ پرواز کہاں سے لاؤں
مجھ سے ہنس ہنس کے تری مشق ستم ہوتی ہے
تجھ سا مونس بت طناز کہاں سے لاؤں
شومیٔ بخت ہے یہ چرخؔ کہ وہ کہتے ہیں
میں مسیحائی کا انداز کہاں سے لاؤں
غزل
گنگناتی ہوئی آواز کہاں سے لاؤں
چرخ چنیوٹی