غنچہ و گل میں تازگی نہ رہی
اب بہاروں میں دل کشی نہ رہی
اب تو قندیل دل کرو روشن
بزم ہستی میں روشنی نہ رہی
جو بھی کرنا ہے آج ہی کر لے
کل یہ دنیا رہی رہی نہ رہی
وہ گلے مل کے کیا ہوئے رخصت
زندگی جان زندگی نہ رہی
کر رہے ہیں وہ اہتمام غم
اب تو میری خوشی خوشی نہ رہی
مے کدہ ہو گیا تہہ و بالا
کوئی شے میرے کام کی نہ رہی
سارا مے خانہ کشمکش میں ہے
طرز میکشؔ میں دل کشی نہ رہی
غزل
غنچہ و گل میں تازگی نہ رہی
میکش ناگپوری