غنچہ جو سر شاخ چٹکتے ہوئے دیکھا
پہلو میں بہت دل کو دھڑکتے ہوئے دیکھا
مہندی رچے ہاتھوں نے اٹھایا ہی تھا گھونگھٹ
اک شعلۂ جوالہ لپکتے ہوئے دیکھا
وہ تیرے بچھڑنے کا سماں یاد جب آیا
بیتے ہوئے لمحوں کو سسکتے ہوئے دیکھا
بھولا نہیں احساس ترے لمس کی خوشبو
تنہائی میں انفاس مہکتے ہوئے دیکھا
کھینچے ہوئے اب تیر کماں میں ہے وہ بالک
آغوش میں جس کو نہ ہمکتے ہوئے دیکھا
جب جب بھی چراغوں کی لویں ہم نے بڑھائیں
کیا کیا نہ ہواؤں کو سنکتے ہوئے دیکھا
غزل
غنچہ جو سر شاخ چٹکتے ہوئے دیکھا
عشرت قادری