غنچۂ دل کہ بکھرتا بھی دکھائی نہ دیا
ایسا بکھرا کہ اشارا بھی دکھائی نہ دیا
کس کے ہمراہ نظر آتا تھا تنہا تنہا
کس سے بچھڑا ہوں کہ تنہا بھی دکھائی نہ دیا
روشنی کی وہ چکا چوندھ تھی آنکھوں میں کہ ہم
شہر سے نکلے تو صحرا بھی دکھائی نہ دیا
سرد مہریٔ زمانہ کی سلگتی ہوئی آگ
کیا بلا تھی کہ دھواں سا بھی دکھائی نہ دیا
ان کتابوں پہ تو ہم نے بھی کیا ہے کچھ کام
جن میں اک حرف تمنا بھی دکھائی نہ دیا
بس چلے تھے کہ غبار رہ منزل اٹھا
چہرے وہ بدلے کہ اپنا بھی دکھائی نہ دیا
رات بھر خون کے دریا میں نہایا خورشید
دامن صبح پہ دھبا بھی دکھائی نہ دیا
سارا عالم تھا کہ تاریک نظر آتا تھا
اور محشرؔ کو دھندلکا بھی دکھائی نہ دیا
غزل
غنچۂ دل کہ بکھرتا بھی دکھائی نہ دیا
محشر عنایتی