گناہ گار ہوں ایسا رہ نجات میں ہوں
میں خود چراغ بکف ہر اندھیری رات میں ہوں
شعور گم ہوا دیوانگی ہے کھوئی ہوئی
خدا ہی جانے میں کس منزل حیات میں ہوں
تجلی پس پردہ ذرا توقف کر
ابھی تو گرم نظر بزم ممکنات میں ہوں
سوال ایک نظر کا ہے رد نہ کر اے دوست
گدائے خاک بسر راہ التفات میں ہوں
حریف جلوہ بھی اک روز ہوں گا صبر کرو
ابھی تو اپنی بہشت تصورات میں ہوں
ہے تیری یاد کا عالم بھی کتنا دل آویز
سمجھ رہا ہوں کسی اور کائنات میں ہوں
کسی کے دل کا سکوں ہوں کسی کے دل کی خلش
ضمیر وقت ہوں اور قلب کائنات میں ہوں
ہے میرے ہاتھ میں بھی دل کا اک بجھا سا دیا
کچھ آنسوؤں کی سجائی ہوئی برات میں ہوں
ہوں خود ہی آئینۂ حال کیا بتاؤں سراجؔ
میں کس کا نقش قدم عرصۂ حیات میں ہوں
غزل
گناہ گار ہوں ایسا رہ نجات میں ہوں
سراج لکھنوی