EN हिंदी
گمرہی کا مری سامان ہوا جاتا ہے | شیح شیری
gumrahi ka meri saman hua jata hai

غزل

گمرہی کا مری سامان ہوا جاتا ہے

عبید الرحمان

;

گمرہی کا مری سامان ہوا جاتا ہے
راستہ زیست کا آسان ہوا جاتا ہے

اک طرف روح کہ پرواز کو جیسے تیار
اک طرف جسم کہ بے جان ہوا جاتا ہے

دشت غربت ہے کہ آباد ہمارے دم سے
گھر کا آنگن ہے کہ ویران ہوا جاتا ہے

کیوں نہ پھر دھوپ بھی بن جائے گھٹا جب ہم پر
آپ کا سایۂ مژگان ہوا جاتا ہے

کہہ دیا آپ نے کیا کان میں چپکے سے اسے
دل میں برپا مرے ہیجان ہوا جاتا ہے

آپ کی میری ہی غزلوں کی ہیں کترن ساری
جن سے وہ صاحب دیوان ہوا جاتا ہے

دی ہے چپکے سے عبیدؔ اس نے لبوں پر دستک
شور برپا تہ شریان ہوا جاتا ہے