EN हिंदी
گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں | شیح شیری
guman tha ya teri KHushbu yaqin ab bhi nahin

غزل

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں

ضیا جالندھری

;

گماں تھا یا تری خوشبو یقین اب بھی نہیں
نہیں ہوا پہ بھروسہ تو کچھ عجب بھی نہیں

کھلیں تو کیسے کھلیں پھول اجاڑ صحرا میں
سحاب خواب نہیں گریۂ طلب بھی نہیں

ہنسی میں چھپ نہ سکی آنسوؤں سے دھل نہ سکی
عجب اداسی ہے جس کا کوئی سبب بھی نہیں

ٹھہر گیا ہے مرے دل میں اک زمانے سے
وہ وقت جس کی سحر بھی نہیں ہے شب بھی نہیں

تمام عمر ترے التفات کو ترسا
وہ شخص جو ہدف ناوک غضب بھی نہیں

گلا کرو تو وہ کہتے ہیں یوں رہو جیسے
تمہارے چہروں پہ آنکھیں نہیں ہیں لب بھی نہیں

مفاہمت نہ کر ارزاں نہ ہو بھرم نہ گنوا
ہر اک نفس ہو اگر اک صلیب تب بھی نہیں

برا نہ مان ضیاؔ اس کی صاف گوئی کا
جو درد مند بھی ہے اور بے ادب بھی نہیں