گماں کی قید حصار قیاس سے نکلو
کسی طرح سے بھی اس سبز گھاس سے نکلو
یہ شہر سنگ ہے شہر وفا نہیں ہے یہ
اگر نکلنا ہے ہوش و حواس سے نکلو
وگرنہ وقت تمہیں حاشیے پہ رکھ دے گا
یقیں کے سحر سے آشوب آس سے نکلو
یہ کیسا نشہ ہے آخر جو ٹوٹتا ہی نہیں
کوئی پکار رہا ہے گلاس سے نکلو
کہاں تلک میں نگاہوں کو دوں فریب اپنی
کبھی تو گرد عدم کے لباس سے نکلو
مبارکؔ آگ کے دریا سے بھی گزرنا ہے
دہکتی دھوپ سے صحرا کی پیاس سے نکلو
غزل
گماں کی قید حصار قیاس سے نکلو
مبارک انصاری