گماں کے تن پہ یقیں کا لباس رہنے دو
کہ میرے ہاتھ میں خالی گلاس رہنے دو
زمانہ گزرا ہے خوشیوں کا ساتھ چھوڑے ہوئے
مرے مزاج کو اب غم شناس رہنے دو
عمل کی رت میں پنپتی ہیں ٹہنیاں حق کی
ملاؤ سچ سے نگاہیں قیاس رہنے دو
وہ خواب کو بھی حقیقت سمجھ کے جیتے ہیں
اسی میں خوش ہیں تو یہ التباس رہنے دو
ملا کے ہاتھ شیاطیں سے دیکھتے ہو مجھے
انانیت کو تم اپنے ہی پاس رہنے دو
مجھے نہ کھینچو خوشی کے حصار میں اے اطیبؔ
اداس رہنا ہے مجھ کو اداس رہنے دو

غزل
گماں کے تن پہ یقیں کا لباس رہنے دو
اطیب اعجاز