EN हिंदी
گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو | شیح شیری
gum-shuda tanhaiyon ki raaz-dan achchhi to ho

غزل

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو

کفیل آزر امروہوی

;

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو
میں یہاں اچھا نہیں ہوں تم وہاں اچھی تو ہو

وقت رخصت بھیگے بھیگے ان دریچوں کی قسم
نور پیکر چاند صورت گلستاں اچھی تو ہو

تھرتھراتے کانپتے ہونٹوں کو آیا کچھ سکوں
اے زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں اچھی تو ہو

دھوپ نے جب آرزو کے جسم کو نہلا دیا
بن گئی تھیں تم وفا کا سائباں اچھی تو ہو

رات بھر چلے وظیفے وہ تہجد اور فجر
مل گیا اب تو صلہ اے میری ماں اچھی تو ہو

اس زمانے میں جب اپنوں کا بھروسہ ہو فریب
سوچتی رہتی ہو میں جاؤں کہاں اچھی تو ہو

جھلملاتے ہیں ستارے رات کو پلکوں پہ جب
چاند سے سنتی ہو میری داستاں اچھی تو ہو

وہ تمہاری اک سہیلی بن گئی تھی جو دلہن
اس سے خط لکھ کر کبھی پوچھا نہاں اچھی تو ہو

جب کہیں جاؤ تو لکھ دینا مجھے اپنا پتہ
پوچھنے ورنہ میں جاؤں گا کہاں اچھی تو ہو

تم سدا اچھی رہو آذرؔ کی ہے بس یہ دعا
فاصلے صدیوں کے ہیں اب درمیاں اچھی تو ہو