گم شدہ موسم کا آنکھوں میں کوئی سپنا سا تھا
بادلوں کے اڑتے ٹکڑوں میں ترا چہرا سا تھا
پھر کبھی مل جائے شاید زندگی کی بھیڑ میں
جس کی باتیں پیاری تھیں اور نام کچھ اچھا سا تھا
جاں بلب ہونے لگا ہے پیاس کی شدت سے وہ
خشک ریگستان میں اک شخص جو دریا سا تھا
گھر گیا ہے اب تو شعلوں میں مرا سارا وجود
اس کی یادیں تھیں تو سر پر اک خنک سایا سا تھا
اس نے اچھا ہی کیا رشتوں کے دھاگے توڑ کر
میں بھی کچھ اکتا گیا تھا وہ بھی کچھ اوبا سا تھا
شہر کی ایک ایک شے اپنی جگہ پر ہے نظرؔ
کیا ہوا وہ آدمی کچھ کچھ جو دیوانا سا تھا

غزل
گم شدہ موسم کا آنکھوں میں کوئی سپنا سا تھا
بدنام نظر