گم بہ خود بیگانۂ ہر عیش محفل ہو گئے
ان سے مل کر اور بھی تنہا ہم اے دل ہو گئے
کتنی نامنظور قدریں تھیں جو اپنانی پڑیں
کتنے ہی پیارے عقائد تھے جو باطل ہو گئے
علم جب کچھ بھی نہ تھا تو اس قدر جاہل نہ تھے
علم کچھ حاصل ہوا تو اور جاہل ہو گئے
زندگی کا لطف طوفاں میں ہے طغیانی میں ہے
حیف جو آسودۂ آغوش ساحل ہو گئے
یہ ہے مے خانہ ادب لازم ہے یہ مسجد نہیں
دیر سے آئے صف اول میں شامل ہو گئے
کاش یہ سمجھیں ستم کیشان نیویارک اے نظیرؔ
کوئی ہے جس کے لیے ہم ان سے غافل ہو گئے
غزل
گم بہ خود بیگانۂ ہر عیش محفل ہو گئے
نظیر مظفرپوری