گل زار میں یہ کہتی ہے بلبل گل تر سے
دیکھے کوئی معشوق کو عاشق کی نظر سے
لو اور سنو کہتے ہیں وہ ہم سے بگڑ کر
دیکھو ہمیں دیکھو نہ محبت کی نظر سے
وہ اٹھی وہ آئی وہ گھٹا چھا گئی ساقی
مے خانے پہ اللہ کرے ٹوٹ کے برسے
مے خانہ پہ گھنگھور گھٹا چھائی ہے بیکار
کھلنا ہو تو کھل جائے برسنا ہو تو برسے
کیا عشق ہے کیا شوق ہے کیا رشک ہے کیا لاگ
دل جلوہ گاہ ناز میں آگے ہے نظر سے
اس خوف سے مل لیتے ہیں وہ نوحؔ سے اکثر
طوفاں نہ اٹھائے کہیں یہ دیدۂ تر سے

غزل
گل زار میں یہ کہتی ہے بلبل گل تر سے
نوح ناروی