گلزار میں رفتار صبا اور ہی کچھ ہے
اس شوخ کے چلنے کی ادا اور ہی کچھ ہے
کرتی ہے خنک دل کی تپش باد سحر بھی
لیکن ترے دامن کی ہوا اور ہی کچھ ہے
شاید وہ شباب آنے سے آگاہ ہوا ہے
پلکیں ہیں جھکیں رنگ حیا اور ہی کچھ ہے
کس شوخ نے زلفوں کو ہوا میں ہے اڑایا
یہ توبہ شکن کالی گھٹا اور ہی کچھ ہے
کہنے کو تو ہر فرد و بشر سب ہیں برابر
دنیا میں مگر شور بپا اور ہی کچھ ہے
بیکس کا لہو شعلہ نہ بن جائے سنبھلنا
پیغام سناتی یہ ہوا اور ہی کچھ ہے
وہ لاکھ ستم ڈھائیں کبھی اف نہ کروں گا
آفت مرا دستور وفا اور ہی کچھ ہے

غزل
گلزار میں رفتار صبا اور ہی کچھ ہے
للن چودھری