گلزار جہاں میں گل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
کہتی ہے یہ ہنس کر صبح خزاں سب ناز عبث اک خواب ہیں ہم
کس ماہ لقا کے عشق میں یوں بے چین ہیں ہم بیتاب ہیں ہم
کرنوں کی طرح آوارہ ہیں ہم تاروں کی طرح بے خواب ہیں ہم
مٹ جانے پہ بھی مسرور ہیں ہم مرجھانے پہ بھی شاداب ہیں ہم
شہبائے شباب و عشق کا اک بھولا ہوا رنگیں خواب ہیں ہم
فطرت کے جمال رنگیں سے ہم نے بھی اٹھائے ہیں پردے
بربط ہے اگر فردوس جہاں تو اس کے لئے مضراب ہیں ہم
خوش وقتی ہے وجہ رنج و الم گلزار جہاں میں اے ہمدم
طائر نہ پکاریں شاد ہیں ہم غنچے نہ کہیں شاداب ہیں ہم
ملنے پہ گر آئیں کوئی مکاں خالی نہیں اپنے جلووں سے
اور گوشہ نشیں ہو جائیں اگر کم یاب نہیں نایاب ہیں ہم
دو دن کے لئے ہم آئے ہیں اک شب کی جوانی لائے ہیں
فردوس سرائے ہستی میں ہم رنگ گل مہتاب ہیں ہم
رسوائی شعر و عشق نے وہ رتبہ ہمیں اخترؔ بخشا ہے
فخر دکن و بنگال ہیں ہم ناز اودھ و پنجاب ہیں ہم
غزل
گلزار جہاں میں گل کی طرح گو شاد ہیں ہم شاداب ہیں ہم
اختر شیرانی