گلستان زندگی میں زندگی پیدا کرو
مسکرا کر روح میں کچھ تازگی پیدا کرو
مردنی چہرے بنا کر فائدہ جینے سے کیا
کم سے کم اس زندگی میں زندگی پیدا کرو
توڑ دو بڑھ کر اندھیری رات کے شڑینتر کو
کچھ نہیں تو آرزوئے روشنی پیدا کرو
وقت کے بے رحم ہاتھوں نے کچل ڈالا جنہیں
ان خزاں دیدہ گلوں میں تازگی پیدا کرو
دیکھ لینا یہ جہاں جنت نشاں بن جائے گا
دشمنوں سے رسم و راہ زندگی پیدا کرو
صرف آبادی بڑھانے سے کوئی حاصل نہیں
جن میں ہو انسانیت وہ آدمی پیدا کرو
کعبہ و کاشی علامت ہیں خدا کے نور کے
تم غریبوں کے گھروں میں روشنی پیدا کرو
زندگی بخشی گئی ہے درد دل کے واسطے
زندگی میں درد دل اے ساہنیؔ پیدا کرو
غزل
گلستان زندگی میں زندگی پیدا کرو
اشوک ساہنی