گلشن دل میں ملے عقل کے صحرا میں ملے
جو بھی ملنا ہے ملے اور اسی دنیا میں ملے
برہمی انجمن شوق کی کیا پوچھتے ہو
دوست بچھڑے ہوئے اکثر صف اعدا میں ملے
آنے والوں نے مرے بعد گواہی دی ہے
کئی گلزار مرے نقش کف پا میں ملے
یوں بھی گزری ہے کہ چھائے رہے بیداری پر
نیند آئی تو وہ غم خواب کی دنیا میں ملے
نہیں معلوم کہ کیا دیکھنے آئے تھے ادھر
بے اجر لوگ بہت شہر تماشا میں ملے
پھر امیدوں نے یہیں گاڑ دیے ہیں خیمے
رنگ کچھ اڑتے ہوئے دامن صحرا میں ملے
فاصلوں سے نہ مرے شوق کی منزل ناپو
شش جہت صید مرے دام تمنا میں ملے
غزل
گلشن دل میں ملے عقل کے صحرا میں ملے
احتشام حسین