گلوں سے وصل کے پیماں ہوا نے لکھے تھے
نصیب شاخ مگر تازیانے لکھے تھے
ترا وصال ہی زرخیزیوں کا لمحہ تھا
پھر اس کے بعد تو بنجر زمانے لکھے تھے
کبھی تو پڑھتا مرا شہریار بھی ان کو
جو بام و در پہ نوشتے قضا نے لکھے تھے
سروں سے گرنے لگیں جب ہماری دستاریں
ان آندھیوں میں ہمیں سر بچانے لکھے تھے
تمام عمر مری سوگوار گزری ہے
نصیب میرے کسی کربلا نے لکھے تھے
میں مانتا ہی نہیں واعظوں کا یہ مسلک
کہ اس طرح ہی مرے دن خدا نے لکھے تھے
غزل
گلوں سے وصل کے پیماں ہوا نے لکھے تھے
محمود رحیم