گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
یہ ڈالیاں ہیں کہ ہیں ڈولیاں حسینوں کی
یہ آستینیں نہیں ہیں چنی ہوئی ظالم
بلائیں لی ہیں نگاہوں سے آستینوں کی
کسی کے جلوے سر عرش چھپ نہیں سکتے
کہ دور رسن ہیں نگاہیں بلند بینوں کی
پس فنا بھی نہ خالی رہیں یہ قصر رفیع
نہ ہوں مکین تو قبریں رہیں مکینوں کی
کس انتہا کی نزاکت ہے میرے شعروں میں
نظر لگے نہ کہیں ان کو نکتہ چینوں کی
جو نیند آئے تو یوں آئے موت آئے تو یوں
ہمارے سامنے شکلیں ہوں مہ جبینوں کی
ہم اپنے ملک سخن کو وسیع کرتے ہیں
ہمیں تلاش ہے ہر دم نئی زمینوں کی
انہیں غرض مری باتیں کھڑے کھڑے سن لیں
سنیں گے بیٹھ کے وہ اپنے ہم نشینوں کی
کہاں وہ چاندنی راتیں وہ چاند کے ٹکڑے
نہ اب وہ ہم ہیں نہ شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
اترتے ہیں نئے مضموں جو آسماں سے ریاضؔ
تلاش رہتی ہے ہم کو نئی زمینوں کی
غزل
گلوں کے پردے میں شکلیں ہیں مہ جبینوں کی
ریاضؔ خیرآبادی