گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
کشود کار کی کوشش میں دے نہ حرص کو دخل
شکست دیتی ہے فوجوں کو کارزار میں لوٹ
لبھائے سیکڑوں دل ان کے خال عارض نے
مچائے زنگیوں نے وادیٔ تتار میں لوٹ
وہ منتظم ہے رہے جس کی جز و کل پہ نظر
نہ کر سکے کوئی گونگیر کاروبار میں لوٹ
جہاں میں ہوتی ہے احسان کی جزا احسان
ثواب نیکیوں کے دور اختیار میں لوٹ
عبث ہے بوند کا چوکا اگر گھڑے ڈھلکائے
ہمیشہ نقد میں وارا ہے یاں ادھار میں لوٹ
کئے ہیں شیب نے سب جسم کے قویٰ کمزور
شروع ہو گئی ہر سمت اس حصار میں لوٹ
ہجوم یاس میں چھوڑ اے امید کشور دل
ہے قتل عام کا غل شہر میں جوار میں لوٹ
بنے وہ فاتح کونین خوش ہو تو جس سے
زیادہ گنج کواکب سے ہو شمار میں لوٹ
دیار دل میں ہے پھر داغ عشق کا توڑا
جنوں متاع ہوس موسم بہار میں لوٹ
بھری ہے تازہ ہر ایک سر میں شور و شر کی ہوا
عجب نہیں جو مچے باغ روزگار میں لوٹ
حبیبؔ مشق ریاضت سے کھو کے زنگ دوئی
مزے وصال کے ہر دم فراق یار میں لوٹ
غزل
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
حبیب موسوی