گل زخم کو آنسو کو گہر ہم نے کہا ہے
ہر عیب محبت کو ہنر ہم نے کہا ہے
رعنائی جلوہ کو بصد حسن تیقن
خود اپنا ہی اک عکس نظر ہم نے کہا ہے
کچھ بات تو ہے جس کے سبب سارے جہاں میں
اے دوست تجھے خلد نظر ہم نے کہا ہے
کہنے کو رہ شوق میں راہی تو بہت تھے
منزل کو مگر گرد سفر ہم نے کہا ہے
ہو جن سے غم تیرگیٔ شب کا مداوا
ایسے ہی اجالوں کو سحر ہم نے کہا ہے
حق گوئی کا انجام سمجھ کر بھی اے منشاؔ
جو کہنا تھا بے خوف و خطر ہم نے کہا ہے

غزل
گل زخم کو آنسو کو گہر ہم نے کہا ہے
محمد منشاء الرحمن خاں منشاء