گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے
چھوڑا کہیں نہ مجھ کو نسیم بہار نے
کنج قفس میں بھی مجھے آئی ابھارنے
اب دل کی لاج مشق تصور کے ہاتھ ہے
شیشہ میں اس پری کو چلا ہے اتارنے
ساقی تو ساقی بادہ پرستوں کے پاؤں پر
سجدے کرائے لغزش مستانہ وار نے
اب تو نظر میں دولت کونین ہیچ ہے
جب تجھ کو پا لیا دل امیدوار نے
چشم ادا شناس کو حیران کر دیا
حسن اپنا ذرے ذرے میں دکھلا کے یار نے
بیدمؔ تمہاری آنکھیں ہیں کیا عرش کا چراغ
روشن کیا ہے نقش کف پائے یار نے
غزل
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
بیدم شاہ وارثی