گل ویرانہ ہوں کوئی نہیں ہے قدرداں میرا
تو ہی دیکھ اے مرے خلاق حسن رائیگاں میرا
یہ کہہ کر روح نکلی ہے تن عاشق سے فرقت میں
مجھے عجلت ہے بڑھ جائے نہ آگے کارواں میرا
ہوا اس کو اڑا لے جائے اب یا پھونک دے بجلی
حفاظت کر نہیں سکتا مری جب آشیاں میرا
زمیں پر بار ہوں اور آسمان سے دور اے مالک
نہیں معلوم کچھ آخر ٹھکانا ہے کہاں میرا
مجھے نغمے کا لطف آتا ہے راتوں کی خموشی میں
دل بشکستہ ہے اک ساز آہنگ فغاں میرا
وہیں سے ابتدائے کوچۂ دلدار کی حد ہے
قدم خود چلتے چلتے آ کے رک جائے جہاں میرا
ذرا دور اور ہے اے کشتئ عمر رواں ساحل
کہ اس بحر جہاں میں ہر نفس ہے بادباں میرا
ہوئی جاتی ہے تنہائی میں لذت روح کی ضائع
لٹا جاتا ہے ویرانے میں گنج شائگاں میرا
عناصر ہنستے ہیں دنیا کی وسعت مسکراتی ہے
کسی سے پوچھتے ہیں اہل بینش جب نشاں میرا
مرے بعد اور پھر کوئی نظر مجھ سا نہیں آتا
بہت دن تک رکھیں گے سوگ اہل خانداں میرا
غنیمت ہے نفس دو چار جو باقی ہیں اب ورنہ
کبھی کا لٹ چکا سرمایۂ سود و زیاں میرا
ابھی تک فصل گل میں اک صدائے درد آتی ہے
وہاں کی خاک سے پہلے جہاں تھا آشیاں میرا
رواںؔ سچ ہے محبت کا اثر ضائع نہیں ہوتا
وہ رو دیتے ہیں اب بھی ذکر آتا ہے جہاں میرا
غزل
گل ویرانہ ہوں کوئی نہیں ہے قدرداں میرا
جگت موہن لال رواںؔ