گل خوش نما کے لباس میں کہ شعاع نور میں ڈھل کے آ
تجھے ڈھونڈھ لے گی مری نظر تو ہزار رنگ بدل کے آ
ترے دل کی آگ حقیقتاً ترے حق میں فصل بہار ہے
جو بجھائے سے بھی نہ بجھ سکے اسی دل کی آگ میں جل کے آ
تری جستجو بھی حجاب ہے تری آرزو بھی حجاب ہے
کبھی دام عقل و شعور سے جو نکل سکے تو نکل کے آ
یہ ہے اہل ظرف کی انجمن یہ ہے اہل عشق کا مے کدہ
تو ہزار نشہ میں چور ہو جو یہاں پہ آ تو سنبھل کے آ
مہ و مہر میں بھی ہے دل کشی مگر اس کی بات ہے اور ہی
تجھے آرزوئے جمال ہے تو حریم ناز میں چل کے آ
یہ جنون عشق کی شان ہے تجھے لوگ کچھ بھی کہا کریں
جو عطائے کوئے حبیب ہے وہی خاک چہرہ پہ مل کے آ
اثر آفرین بہار ہے تری فکر شاعرؔ خوش نوا
جنہیں چھو سکے نہ خزاں کبھی وہی پھول لے کے غزل کے آ
غزل
گل خوش نما کے لباس میں کہ شعاع نور میں ڈھل کے آ
شاعر فتح پوری