گل بھی خوش طلعت ہے پر اے ماہ تو کچھ اور ہے
باس اس میں اور کچھ ہے تجھ میں بو کچھ اور ہے
کہنے سننے کا نہیں یہ وقت جا واعظ کہیں
عالم مستی میں اپنی گفتگو کچھ اور ہے
حور و غلماں کی ہوس کافر ہو جس کو ٹک بھی ہو
عاشقوں کے دل کی زاہد آرزو کچھ اور ہے
ٹوکتا تو میں نہیں پر ان دنوں نام خدا
خوب چمکے ہو تمہارا رنگ رو کچھ اور ہے
طشت و خنجر گردن و سر جمع ہیں مت دیر کر
قصد گر دل میں ترے اے جنگجو کچھ اور ہے
غزل
گل بھی خوش طلعت ہے پر اے ماہ تو کچھ اور ہے
میر شیر علی افسوس