EN हिंदी
گل بہ داماں نہ کوئی شعلہ بجاں ہے اب کے | شیح شیری
gul-ba-daman na koi shoala ba-jaan hai ab ke

غزل

گل بہ داماں نہ کوئی شعلہ بجاں ہے اب کے

خورشید احمد جامی

;

گل بہ داماں نہ کوئی شعلہ بجاں ہے اب کے
چار سو وقت کی راہوں میں دھواں ہے اب کے

شام ہجراں جسے ہاتھوں میں لیے پھرتی ہے
کون جانے کہ وہ تصویر کہاں ہے اب کے

زندگی رات کے پھیلے ہوئے سناٹے میں
دور ہٹتے ہوئے قدموں کا نشاں ہے اب کے

تیری پلکوں پہ کوئی خواب لرزتا ہوگا
میرے گیتوں میں کوئی درد جواں ہے اب کے

ایک اک سانس پہ دھوکا ہے کسی آہٹ کا
ایک اک گھاؤ اجالوں کی زباں ہے اب کے

صحن‌ گلشن ہے بہاروں کے لہو سے رنگیں
شاخ گل ہے کہ بس اک تیغ رواں ہے اب کے

جو کبھی حسن کے ہونٹوں پہ نہ آیا جامیؔ
ہائے وہ حرف تسلی بھی گراں ہے اب کے