گفتگو کیوں نہ کریں دیدۂ تر سے بادل
لوٹ آئے ہیں ستاروں کے سفر سے بادل
کیا غضب ناک تھی سورج کی برہنہ شمشیر
کالے مجرم کی طرح نکلے نہ گھر سے بادل
رات کی کوکھ کوئی چاند کہاں سے لائے
یہ زمیں بانجھ ہے برسے کہ نہ برسے بادل
برف سے کہیے کہ سوغات کرے ان کی قبول
لائے ہیں آگ کے دستانے سفر سے بادل
میں کہ ہوں دھوپ کا آزاد پرندہ لیکن
بال کیوں نوچ رہے ہیں مرے پر سے بادل
آخری خط تو لکھوں گا میں لہو سے خود کو
اب بھی مایوس جو لوٹے ترے در سے بادل
نہ کسی جسم کا جادو نہ گھٹا گیسو کی
پریمؔ کیوں روٹھ گئے پریم نگر سے بادل
غزل
گفتگو کیوں نہ کریں دیدۂ تر سے بادل
پریم واربرٹنی