EN हिंदी
گداز تک ہی خرابی ہنر سنبھالے گا | شیح شیری
gudaz tak hi KHarabi hunar sambhaalega

غزل

گداز تک ہی خرابی ہنر سنبھالے گا

محمد اعظم

;

گداز تک ہی خرابی ہنر سنبھالے گا
یہ خاک سوختہ کب کوزہ گر سنبھالے گا

خطر پذیر ہوں اس بے دلی میں گریہ بھیج
یہ زلزلہ ہی مرے بام و در سنبھالے گا

تو ہی تو اک صدف دل کی آبرو ہے مگر
یہ آب کتنے دنوں تک گہر سنبھالے گا

یہ دیکھنا ہے کہ طوفان ریگ زار میں تو
زمام سمت کہ زاد سفر سنبھالے گا

گرانیٔ شب خاموش بے حساب کے بعد
حساب جتنا ہے مرغ سحر سنبھالے گا

ملاؤ عشق میں کچھ رنج روزگار سے آب
بہت نہ بادۂ خالص جگر سنبھالے گا