گداز تک ہی خرابی ہنر سنبھالے گا
یہ خاک سوختہ کب کوزہ گر سنبھالے گا
خطر پذیر ہوں اس بے دلی میں گریہ بھیج
یہ زلزلہ ہی مرے بام و در سنبھالے گا
تو ہی تو اک صدف دل کی آبرو ہے مگر
یہ آب کتنے دنوں تک گہر سنبھالے گا
یہ دیکھنا ہے کہ طوفان ریگ زار میں تو
زمام سمت کہ زاد سفر سنبھالے گا
گرانیٔ شب خاموش بے حساب کے بعد
حساب جتنا ہے مرغ سحر سنبھالے گا
ملاؤ عشق میں کچھ رنج روزگار سے آب
بہت نہ بادۂ خالص جگر سنبھالے گا
غزل
گداز تک ہی خرابی ہنر سنبھالے گا
محمد اعظم