غبار ہوتی صدی کے صحراؤں سے ابھرتے ہوئے زمانے
نئے زمانوں میں آئے تجھ کو تلاش کرتے ہوئے زمانے
اداس شاموں کی سرد راتوں میں تیرے عشاق دیکھتے ہیں
پلک جھپکتے ہوئے دریچوں میں صبح کرتے ہوئے زمانے
اگر یہ سب کاروبار ہستی تری توجہ سے ہٹ گیا ہے
تو پھر یہ کس نے سنبھال رکھے ہیں سب بکھرتے ہوئے زمانے
بساط امکان پر تغیر کا حسن مہرے بدل رہا ہے
چراغ حیرت کی لو میں زندہ ہیں رقص کرتے ہوئے زمانے
زمین سورج کے گرد اپنے مدار میں گھومتی ہے جیسے
تری گلی کا طواف کرتے ہیں یوں گزرتے ہوئے زمانے
غزل
غبار ہوتی صدی کے صحراؤں سے ابھرتے ہوئے زمانے
سلیم کوثر