غبار راہ کے مانند رہ گزار میں ہیں
ہمارا کیا ہے بھلا ہم بھی کس شمار میں ہیں
اگر وہ غیر کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں تو کیا
ہم اپنے آپ بھی کب اپنے اختیار میں ہیں
ہمارا عالم حسرت بھی ہے عجیب کہ ہم
گزر گئے ہیں جو دن ان کے انتظار میں ہیں
زمانہ اپنی حدوں سے نکل کے پھیل گیا
اور ایک ہم کہ ابھی اپنے ہی حصار میں ہیں
یہ اپنا شہر اندھیروں کا شہر ہے شاید
بڑے عذاب یہاں روشنی سے پیار میں ہیں
وہ جان بزم گیا رونقیں تمام ہوئیں
یہ لوگ کس لیے بیٹھے ہیں کس خمار میں ہیں
عجب فضائیں ہیں نکہتؔ کھلا نہ کچھ ہم پر
یہ اپنا گھر ہے کہ میدان کارزار میں ہیں
غزل
غبار راہ کے مانند رہ گزار میں ہیں
نکہت بریلوی