غبار راہ بنی میں رہ غبار میں ہوں
نہ جانے کون ہے میں جس کے انتظار میں ہوں
وہ مجھ سے ملنے پلٹ کر ضرور آئے گا
بہت زمانے سے امید کے حصار میں ہوں
یہ جبر و قدر کا چکر ازل سے چلتا ہے
کبھی یہ سوچا نہیں کس کے اختیار میں ہوں
یہ لوگ کون ہیں کیسے ہیں کچھ نہیں معلوم
میں بس ہجوم کا حصہ ہوں کس شمار میں ہوں
مجھے بھی دیں گے وہ حصہ یہ کیسے سوچ لیا
میں اتنی دور ہوں میں کب کھڑی قطار میں ہوں
میں اس کی ہوں وہ مرا ہے بس اتنا کافی ہے
نہیں ہے جیت کی چاہت میں مست ہار میں ہوں
سمجھ کے بھی مجھے سمجھا نہیں زمانے نے
خزاں رسیدہ ہوں کھوئی مگر بہار میں ہوں
کھڑی ہوں عشق سمندر کے میں کنارے پر
چڑھا ہے عشق کا نشہ بہت خمار میں ہوں
غزل
غبار راہ بنی میں رہ غبار میں ہوں
شہناز مزمل