غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں
میں عہد گزشتہ کے آشفتگاں کی طرف دیکھتا ہوں
میں سر کو چھپانے سے پہلے جہاں کا ہدف دیکھتا ہوں
مہکتے ہوئے نیک پھولوں کو خنجر بکف دیکھتا ہوں
ہے اندر تلک ایک نیزہ گلو میں کار وضو میں
تو اس ہاؤ میں میں کہاں پر ہوں کس کی طرف دیکھتا ہوں
زمانے کی گھاتیں کتابوں کی باتوں کو جھٹلا رہی ہیں
میں حیرت کا مارا تماشائی عز و شرف دیکھتا ہوں
پنہ مل نہ پائی خیال خدا میں جمال خودی میں
میں اس بے بسی میں پریشان سوئے نجف دیکھتا ہوں
غزل
غبار جہاں میں چھپے باکمالوں کی صف دیکھتا ہوں
عین تابش