غبار عشق سے ہستی کو بھرنے والا ہوں میں
یہ روشنی تو سر چاک دھرنے والا ہوں میں
خمیر ذوق تجھے منزلوں پہ لائے گا
وفور شوق میں جاں سے گزرنے والا ہوں میں
خراب کرتی رہیں مجھ کو سنگتیں ہی تری
ہر اک بگاڑ پہ سمجھا سنورنے والا ہوں میں
کسی کی رائے پہ کب کان دھرنے والا ہوں میں
یہ عمر اپنی ہی دھن میں بسرنے والا ہوں میں
خود اپنی ذات سے باہر ہو منقسم تم تو
خود اپنی ذات کے اندر بکھرنے والا ہوں میں
کسی طرف سے ترازو ضرور جھکتا ہے سو
کسی مفاد میں نقصان کرنے والا ہوں میں
میں اپنے آپ کو سمجھا تو میرا خوف گیا
کہ لوگ تو یہ سمجھتے تھے ڈرنے والا ہوں میں
نہ آ سکیں گے ترے خال و خد سر منظر
نہ کینوس میں کوئی رنگ بھرنے والا ہوں میں
ہمیں یہ موت جدا کر نہ پائے گی ذیشانؔ
وہ تتلیوں میں گلوں میں ابھرنے والا ہوں میں
غزل
غبار عشق سے ہستی کو بھرنے والا ہوں میں
ذیشان ساجد