غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا
ہری بھری رتوں کو میری شال کر دیا گیا
قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں
سو جو بھی اپنے پاس تھا نکال کر دیا گیا
میں زخم زخم ہو گیا لہو وفا کو رو گیا
لڑائی چھڑ گئی تو مجھ کو ڈھال کر دیا گیا
گلاب رت کی دیویاں نگر گلاب کر گئیں
میں سرخ رو ہوا اسے بھی لال کر دیا گیا
وہ زہر ہے فضاؤں میں کہ آدمی کی بات کیا
ہوا کا سانس لینا بھی محال کر دیا گیا
غزل
غبار ابر بن گیا کمال کر دیا گیا
احمد خیال