گوشمالی سے کب انہوں نے اثر لیا تھا
سرکشوں کو جو کام کرنا تھا کر لیا تھا
جب اتر آئے تھے وہ بدلہ اتارنے پر
گن کے ایک ایک سر کے بدلے میں سر لیا تھا
پاؤں چوکھٹ سے باہر اس نے نہیں نکالے
جس نے ورثے میں اپنی نبضوں میں ڈر لیا تھا
اپنے ہتھیار طاق میں گر سجا دئیے تھے
کیوں کسی ایسے شہر میں جا کے گھر لیا تھا
جس نے شورش میں فتح پائی تھی اس نے یاسرؔ
باندیوں سے حرم سراؤں کو بھر لیا تھا

غزل
گوشمالی سے کب انہوں نے اثر لیا تھا
خالد اقبال یاسر