گود میں ذرات کی سر اپنا رکھ کر سو گیا
پیاس کی دہلیز پر دریا کا منظر سو گیا
کچھ نظر آتا نہیں آئینۂ ایام میں
عکس حیرت جاگ اٹھا خوابوں کا پیکر سو گیا
درد کو درماں بنانے کا ہنر رکھتا تھا وہ
اوڑھ کر جو وقت کی خوش رنگ چادر سو گیا
جس کا رشتہ تھا جہان آگہی کے کرب سے
وہ پیام امن کا حامی کبوتر ہو گیا
ہم ہی غم خوار تمنا تھے نہ سوئے صبح تک
جب در و دیوار کو نیند آ گئی گھر سو گیا
خاک اڑتی ہے سر صحن تمنا چار سو
دیدنی جو کچھ بھی تھا منظر بہ منظر سو گیا
عہد نو نے تابش حسن رفاقت چھین لی
قریۂ جاں میں محبت کا سمندر سو گیا
موسم سفاک نے وہ صبح روشن کی ہے نازؔ
قطرۂ شبنم سر شاخ گل تر سو گیا
غزل
گود میں ذرات کی سر اپنا رکھ کر سو گیا
ناز قادری