گو تری زلفوں کا زندانی ہوں میں
بھول مت جانا کہ سیلانی ہوں میں
زندگی کی قید کوئی قید ہے
سوکھتے تالاب کا پانی ہوں میں
چاندنی راتوں میں یاروں کے بغیر
چاندنی راتوں کی ویرانی ہوں میں
جس قدر موجود ہوں مفقود ہوں
جس قدر غائب ہوں لافانی ہوں میں
مجھ کو تنہائی میں سننا بیٹھ کر
مطرب لمحات وجدانی ہوں میں
جس قدر کرتا ہوں اندیشہ عدمؔ
اس قدر تصویر حیرانی ہوں میں
عقل سے کیا کام مجھ ناچیز کا
ایک معمولی سی نادانی ہوں میں
ہوں اگر تو ہوں بھی کیا اس کے سوا
قیمتی ورثے کی ارزانی ہوں میں
دل کی دھڑکن بڑھتی جاتی ہے عدمؔ
کس حسیں کے زیر نگرانی ہوں میں
غزل
گو تری زلفوں کا زندانی ہوں میں
عبد الحمید عدم