گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی
تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی
آ گئی نیند سننے والوں کو
داستاں غم کی مختصر نہ ہوئی
خون کتنے ستم کشوں کا ہوا
آنکھ اس سنگ دل کی تر نہ ہوئی
اس نے سن کر بھی ان سنی کر دی
موت بھی میری معتبر نہ ہوئی
ساتھ تقدیر نے کبھی نہ دیا
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
چین کی جستجو رہی دن رات
زندگی چین سے بسر نہ ہوئی
مجھ کو ملتی نہ اے وفاؔ منزل
عقل قسمت سے راہ بر نہ ہوئی
غزل
گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی
میلہ رام وفاؔ