EN हिंदी
گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی | شیح شیری
go qayamat se peshtar na hui

غزل

گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی

میلہ رام وفاؔ

;

گو قیامت سے پیشتر نہ ہوئی
تم نہ آئے تو کیا سحر نہ ہوئی

آ گئی نیند سننے والوں کو
داستاں غم کی مختصر نہ ہوئی

خون کتنے ستم کشوں کا ہوا
آنکھ اس سنگ دل کی تر نہ ہوئی

اس نے سن کر بھی ان سنی کر دی
موت بھی میری معتبر نہ ہوئی

ساتھ تقدیر نے کبھی نہ دیا
کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی

چین کی جستجو رہی دن رات
زندگی چین سے بسر نہ ہوئی

مجھ کو ملتی نہ اے وفاؔ منزل
عقل قسمت سے راہ بر نہ ہوئی