گو مری ہر سانس اک پیغام سرمستی رہی
میری ہستی مثل بوئے گل پریشاں ہی رہی
حشر تعمیر نشیمن کا نظر میں ہے مگر
اتنے دن میری طبیعت تو ذرا بہلی رہی
کتنی صبحیں یاس کی ظلمت میں آخر بجھ گئیں
شمع دل جلتی رہی جلتی رہی جلتی رہی
کس کے روکے رک سکا سیل روان زندگی
پھول کھلتے ہی رہے بجلی چمکتی ہی رہی
زیبؔ کتنی دیر کا ہنگامۂ سیلاب تھا
رونق دریا مری ٹوٹی ہوئی کشتی رہی
غزل
گو مری ہر سانس اک پیغام سرمستی رہی
زیب غوری