گو مرا ساتھ مری اپنی نظر نے نہ دیا
دشت تنہائی میں اے دل تجھے ڈرنے نہ دیا
زندگی کتنا تری بات کا ہے پاس ہمیں
تو نے جو زخم دیا ہم نے وہ بھرنے نہ دیا
ایک وہ ہیں کہ جنہیں اپنی خوشی لے ڈوبی
ایک ہم ہیں کہ جنہیں غم نے ابھرنے نہ دیا
آپ جس رہگزر دل سے کبھی گزرے تھے
اس پہ تا عمر کسی کو بھی گزرنے نہ دیا
ہم تو ہر حال سنوارا کیے حالات آزادؔ
ہم کو حالات نے ہر چند سنورنے نہ دیا
غزل
گو مرا ساتھ مری اپنی نظر نے نہ دیا
آزاد گلاٹی